تحریر: عاطف خان
اسلام آباد:اسلام آباد کی سب سے مہنگی بلڈنگز سینٹورس اور ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو، شہر کی سب سے زیادہ خطرناک عمارتیں ہیں۔اسلام آباد انتظامیہ کے پاس آلات اورذرائع ہی نہیں کہ آگ لگنے کی صورت میں اسے بجھا سکے ۔
" اگر سینٹورس یا کانسٹی ٹیوشن-1 یا 200 فٹ سے اونچی کسی عمارت میں آگ لگ جائے تو ہمارے پاس اسے بجھانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ایک اہلکار نے بتایا۔ انہوں نے کہا کہ سینٹورس میں لگنے والی حالیہ آگ پر پاک فوج، نیوی اور ایوی ایشن کی وجہ سے قابو پایا گیا
انہوں نے کہا کہ فوڈ کورٹ میں دوپہر کو لگنے والی آگ معمولی تھی لیکن اسے بجھانے میں بھی کئی گھنٹے لگ گئے ۔ اگر رات ہوتی تو بہت زیادہ نقصان ہوسکتا تھا۔
سینٹورس جناح ایونیو کے اہم ترین مقام پر ایک نجی عمارت ہے جس کے تینوں ٹاورز کی لمبائی 110 میٹر یا 361 فٹ ہے۔ اس میں شاپنگ مال کے علاوہ کثیر تعداد میں دفتری اور رہائشی اپارٹمنٹس ہیں
فوڈ کورٹ، جہاں گزشتہ ہفتے آگ لگی تھی، چوتھی منزل پر واقع ہے اور اس میں کئی قومی اور بین الاقوامی برانڈ فوڈ چینز ہیں۔ فوڈ کورٹ سے لگی آگ بعد میں دیگر منزلوں تک پھیل گئی۔ ذرائع کے مطابق آگ کو مکمل طور پر بجھانے میں چار گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا۔بتایا جاتا ہے آگ لگنے سے عمارت کے ڈھانچے کو نقصان پہنچاہے۔
کسی ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لئے اسلام آباد کے ایمرجنسی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے پاس 5 برونٹو اسنارکلز ہیں، ان میں سے سب سے بڑے دو 68 میٹر اونچے ہیں۔ ایک اہلکار نے بتایا کہ آگ لگنے یا کسی بھی بڑے واقعے کی صورت میں، وہ راولپنڈی اور دیگر ہمسایہ تحصیلوں کے فائر ڈیپارٹمنٹ سے مدد طلب کرتے ہیں ۔
پس منظر انٹرویوز کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ اسلام آباد کے ایمرجنسی اینڈ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو فنڈز کی شدید کمی کا سامنا ہے۔پیسوں کی قلت کی وجہ سے آلات کی مناسب دیکھ بھال مشکل ہے ۔
سی ڈی اے کے بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ کے عملے نے مصنف کو بتایا کہ اسلام آباد کے ماسٹر اینڈ بلڈنگ پلان کے مطابق سینٹورس اور کانسٹی ٹیوشن -1 منصوبے غیر قانونی ہیں۔ "200 فٹ سے اوپر کی عمارتوں کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے"، انہوں نے کہا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ٹاورز بااثر لوگوں کے ہیں، اور انہوں نے اس وعدہ پر کہ وہ اپنی عمارتوں کے اندر آگ اور آفات سے نبٹنے کا مناسب انتظام کریں گے ۔ ادارے سے منظوریاں حاصل کر لیں
لیکن وہ مناسب انتظام میں ناکام رہے۔ کمیٹی تو سنہ دو ہزار آٹھ میں راولپنڈی کے ایک بڑے شاپنگ مال گھکڑ پلازہ میں صبح 3 بجے بڑھک اٹھنے والی آگ کے نتیجے میں کئی افراد کی ہلاکت پر بھی بنی تھی
یہ پلازہ 1980 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا، جسے مبینہ طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر مملکت راجہ شاہد ظفر نے تمام عمارتی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کیا تھا
سینٹورس مال میں آتشزدگی کے واقعے کی تحقیقات کے لیے بنی کمیٹی فلک بوس عمارت کو آگ لگانے کے الزام میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کروائے گی
کمیٹی کی باضابطہ رپورٹ آنا ابھی باقی ہے لیکن اطلاعات کے مطابق کمیٹی نے طاقتور مالکان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ سینٹورس وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر سردار تنویر الیاس خان کی ملکیت ہے ، جو پاکستان تحریک انصاف پارٹی سے تعلق رکھنے والے کشمیری سیاستدان ہیں۔
سی ڈی اے طاقتور مالکان کے سامنے اس قدر بے بس ہے کہ سینٹورس مال انتظامیہ بغیر کسی منظوری کے اپنا مونال ریسٹورنٹ چلا رہی ہے۔ سی ڈی اے حکام کے مطابق سنٹورس انتظامیہ نے محکمہ کے ساتھ کبھی تعاون نہیں کیا۔ ایک اہلکار نے بتایا کہ "مال انتظامیہ کو 2017 سے 2021 تک غیر تسلی بخش جواب اور ناقص انتظام کے لیے متعدد نوٹس بھیجے گئے، یہاں تک کہ ایک سینئر اسپیشل مجسٹریٹ نے 15 جون 2017 کو بذات خود ایک نوٹس جاری کیا"، لیکن وہ بھی داخل دفتر ہو گیا
اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر تردید کرتے ہیں کہ شہری انتظامیہ کسی دباو میں ہے۔ "فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ آنا ابھی باقی ہے، جو آگ لگنے کی وجہ کا تعین کرے گی اور مال انتظامیہ نے اس پر کیا ردعمل ظاہر کیا، کیا مال کا عملہ تربیت یافتہ اور ضروری آلات سے لیس تھا یہ تو رپورٹ آنے پر ہی پتہ چلے گا" عرفان نواز میمن نے کہا
ڈپٹی کمشنر نے اعتراف کیا کہ اسلام آباد بائی لاز صرف 200 فٹ تک عمارتوں کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام آباد میں 20 فٹ سے اونچی عمارتیں کیسے بنائی گئیں، میں اس پر تبصرہ نہیں کروں گا لیکن یہ آپکو بتا سکتا ہوں کہ ہمارے پاس 200 فٹ تک کی عمارتوں میں آگ سے لڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔ 68 میٹر لمبی لفٹ جسے برانٹو یا سنارکل کہتے ہیں کسی بھی 200 فٹ اونچی عمارت میں لگی آگ بجھانے کے لیے کافی ہے۔
سینٹورس اسلام آباد کی واحد اونچی عمارت نہیں ہے۔ 20 سے زیادہ منزلہ کئی عمارتیں موجود ہین اور کئی زیر تعمیر ہیں ۔ ہیں۔ 24 منزلہ ٹیلی کام ٹاور113 میٹر یا 371 فٹ بلند ہے۔ دارالحکومت کی اعلیٰ ترین عالیشان عمارت "کانسٹی ٹیوشن ایونیو 105.5 میٹر یا 346 فٹ اونچی ہے۔ کانسٹی ٹیونش ون ہو یا سینٹورس ان عمارتوں میں اپارٹمنٹ خریدنے کے لئے بڑی دولت چاہئے
سینٹورس مال میں تین بیڈ روم اپارٹمنٹ کی قیمت تقریباً 08 کروڑ روپے ہے۔جبکہ زیر تعمیر، کانسٹی ٹیوشن ٹاور میں 2 بیڈ روم اپارٹمنٹ کی مالیت تقریباً 10 کروڑ روپے ہے
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سمیت ملک کے کئی نامور سیاست دانوں اور بزنس مینوں نے اس وقت متحد ہوگئے جب سی ڈی اے نے 2017 میں بلڈنگ بائی لاز اور لیز کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر کانسٹی ٹیونش ایونیو ون تعمیر کرنے والی فرم ، بی این پی کو زمین کی 99 سالہ لیز منسوخ کر دی۔
اس عمارت میں ملک کے مشہور اشخاص بشمول ناصر الملک، سلمان بشیر، احمد مختار، فریال علی گوہر، جہانگیر خان، حارث خان طور، راشد خان، شازیہ حفیظ شیخ، محمد ہاشم خان، ڈاکٹر اسد ضیا، شیخ عامر وحید ۔ شہزاد وسیم، محمد آصف سندیلہ، محبوب الحق، نسیم زہرہ اخلاق، خواجہ محمد اسد اور کشمالہ طارق کے اپارٹمنٹس ہیں
سپریم کورٹ نے 2019 میں کثیر المنزلہ عمارت کی لیز کو بحال کرتے ہوئے ٹاور کے مالک کو حکم دیا کہ وہ آٹھ سال کی اقساط میں حکومت کو 17.5 ارب روپے ادا کرے۔ سینٹورس کی طرح کانسٹی ٹیوشن ٹاور بھی سی ڈی اے حکام کے لیے نو گو ایریا ہے۔
آتشزدگی کے واقعے کے بعد سے سینٹورس ابھی تک سیل ہے۔ ڈپٹی کمشنر کا اصرار ہے کہ نقصان کی جانچکاری رپورٹ کے بعد ہی عمارت کو عوام کے لئے کھولا جائے گا لیکن انہیں نہیں معلوم کہ آگ سے مراثر ہونےوالے کاروبار کا ازالہ کون کریگا
سینٹورس مال کی انتظامیہ اس بارے میں تبصرہ کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھی کہ آگ کے نقصانات کا ازالہ کون کریگا اور یہ کہ وہ مستقبل میں کسی ناخوشگوار واقعے کی روک تھام کو کیسے یقینی بنائیں گے
سی ڈی اے ترجمان سید آصف رضا نے تردید کی کہ سینٹورس یا کانسٹی ٹیوشن ایونیو ون غیر قانونی تعمیرات ہیں ۔ انکا اصرار تھا کہ کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد ہی محکمہ آئندہ لائحہ عمل طے کرےگا