از عاطف خان
پاکستان تحریک انصاف اور فوج کے مابین نو مئی کو شروع ہونے والی جنگ منطقی انجام کی جانب پہنچتی نظر آرہی ہے ۔
روزانہ کی بنیاد پر عمران خان کے قریبی ساتھی ان سے اور انکی جماعت سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری جانب عمران خان کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات کے تحت مقدمات کی کاروائی شروع کردی گئی ہے
عمران خان اور انکی پارٹی کو مزید کمزور کرنے کے لئے انکے دیرینہ ساتھی جہانگیر ترین جنہیں کبھی پی ٹی آئی کا اے ٹی ایم کہا جاتا تھا اپنی پوری طاقت کے ساتھ مدمقابل آچکے ہیں۔ جوڑ توڑ کے بادشاہ جو کبھی عمران خان کے لئے ایم این اے ایم پی اے توڑ کر لاتے تھے آج ایک نئی پارٹی کے لئے جوٹ توڑ کر رہے ہیں ۔ جس میں ہی ٹی آئی سے منحرف ہونےوالے سرکردہ اراکین کو کھپانے کی اطلاعات ہیں
یہ پارٹی پی ٹی آئی کو توڑنے میں کتنی موثر ہوگی اسکے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ماضی میں ایسی کوششیں کم ہی کامیاب ہوئی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لئے مہاجر قومی موومنٹ بنائی گئی لیکن پیپلز پارٹی کی مقبولیت کم نہ ہوکسی۔ آج بھی الیکشن ہوں تو غالب امکان یہی ہے کہ کم از کم سندھ میں پیپلز پارٹی ہی حکومت بنائے گی۔
ماضی قریب میں ایک ایسی انہونی بھی ہوئی ہے جس سے کسی نئی پارٹی تو کیا پی ٹی آئی کے مقابلے میں پرانی پارٹیوں کی بھی دال مشکل سے ہی گلے گی
2014 کے بعد سے فوج کی آشیر باد سے عمران خان نے اپنے مخالفین کے خلاف جو نفرت انگیز بیانیہ تشکیل دیا ہے وہ عوام میں جڑ پکڑ چکا ہے ۔ عمران خان کہتے ہیں انہوں نے عوام کو کرپشن کے خلاف شعور دیا لیکن بات شعور سے اشتعال پر آگئی ہے
لوگوں میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف اتنا غم و غصہ ہے کہ کم از کم پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں تو کسی نئی پارٹی تو کیا پرانیوں کی بھی دال نہیں گلے گی۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سوال اہم ہے کہ 500 روپے سے بھٹی کا کاروبار شروع کرنے والا خاندان کیسے چند دہائیوں میں ہی پاکستان کا امیر ترین خاندان بن گیا ۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ سینما کی ٹکٹیں بلیک کرنے والے کیسے دیکھتے ہی دیکھتے کھرب پتی بن گئے۔ لیکن عمران خان صاحب مقبولیت کے چکر میں یہ بھول گئے کہ ہمارے ملک کا نظام ہی ناجائز ذرائع پر چلتا ہے ۔ بے انتہا اختیارات کے حامل ڈی سی یا پولیس کپتان کی ماہانہ تنخواہ دو سال پہلے تک ایک لاکھ روپے سے بھی کم تھی ۔ انکے پاس کروڑوں اربوں کے گھر گاڑیاں زیورات کہاں سے آجاتے ہیں ۔گنتی کے سرکاری ملازم ہوں گے جو اہنی تنخواہ میں گزارہ کرتے ہوں۔ پھر سیاستدانوں کو دیکھ لیں ۔ ایک ایم پی اے ۔ ایم این اے کا الیکشن لڑنے پر کروڑوں اور اب شائد اربوں روپے کا خرچہ آئے ۔ ایم این اے کی تنخواہ تو دو لاکھ روپے سے بھی کم ہے وہ الیکشن کی رقم کہاں سے لائے گا ۔ اور اگر لائے تو کیا وصولی نہیں کرےگا ۔ پھر اس نے اگلا الیکشن بھی تو لڑنا ہے ۔ وہ اگر اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کرے گا تو کیا ہوگا ۔ پھر عمران خان صاحب کی کابینہ تو چھوڑیں ایم این اے ایم پی اے نے کیا دیہاڑیاں نہیں لگائیں ۔ لیکن عمران خان نے اپنے سپورٹر کو کبھی یہ نہیں بتایا
اگر پیپلز پارٹی کا کارکن نظریاتی تھا تو پی ٹی آئی کا کارکن تو انکے سحر میں گرفتار ہے۔ گزشتہ ایک سال سے عمران خان اسی بیانئے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔ انکا خیال ہے کہ اتنی محاذ آرائی کے بعد اب وہ پسپائی اختیار کرتے ہیں تو انکا بیانیہ پٹ جائے گا ۔ پی ٹی آئی اور اداروں کے درمیان محاذ آرائی اس حد تک بڑھانے میں عمران خان کے قریبی ساتھیوں کو بڑا کردار ہے جو انکو ترکی کے صدر رجب ادرگان سے تشبیہ دیتے رہے۔ اردگان کے پیچھے لوگ اسلئے فوج سے لڑ پڑے تھے کہ انہوں نے اپنے دور میں ترکی کو اقتصادی میدان میں کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا
پھر خان صاحب کو شائد کچھ مفادر پرستوں نے استعمال کیا ۔ رہی سہی کسر مطلب پرست اینکروں نے پوری کردی جو خان صاحب کو ایک ماورائی مخلوق کے روپ مین پیش کر کے کمائی کرتے رہے ۔ ایک قریب المرگ چینل تو خان صاحب کو دیوتا بنا کر ریٹنگ کی دنیا میں امر ہوگیا
لیکن اس سارے کھیل میں نقصان صرف اور صرف عمران خان کا ہوا۔ گزشتہ ایک سال میں مخلوط حکومت کی کارکردگی منفی رہی ۔ لیکن عمران خان مخالفین کی اس ناکامی کا بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خان صاحب اگلے الیکشن کا سکون سے انتطار کرتے ۔ لیکن خان صاحب شائد کرسی پر براجمان ہونے کی جلدی میں تھے ۔ عمران خان نے معزول ہونے کے بعد سے ہی ایک فوج مخالف بیانیہ تشکیل دینا شروع کردیا تھا ۔ میں خطرناک ہوجاوں گا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ خطرناک ہونے کے جتن کرتے رہے
. انکا خیال تھا کہ وہ درا دھمکا کر پھر سے اقتدار میں آجائیں گے ۔ لیکن خان صاھب سے چوک ہو گئی
پہلے وہ سمجتے رہے کہ عوام انکے لئے نکل کھڑی ہوگی پھر وہ سمجھتے رہے کہ شائد ڈرا دھمکا کر وہ دوبارہ وزیر اعظم بنا دئے جائیں گے۔ لیکن جب کچھ نہ ہوا تو وہ اپنے تئیں مزید خطرناک ہوگئے
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ نو مئی کو ملکی چھاونیاں فتح کرنے نکل پڑیں گے۔ کیا انہیں کوئی اندر سے کہ رہا تھا کہ کور کمانڈر ہاوس پر حملہ کردیں۔ نو سے بارہ مئی کے دوران کس کس کا کورٹ مارشل ہوا یا یہ کہ 9 مئی میں کون سے پردہ نشین تھے یہ بات کبھی نہ کبھی منظر عام پر آہی جائے گی
پاکستان میں روائت رہی ہے کہ فوج ملکی ابتری کا ملبہ سیاستدانوں پر اور سیاستدان سارا ملبہ فوج پر ڈال دیں ۔ ہوسکتا ہے فوج کی بھی غلطیاں ہوں ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم فوج پر تنقید کرتے ہوئے داخلی اور خارجی حالات بھول جاتے ہیں ۔ آزادی سے لیکر آج تک پاکستان کے آس پاس شورش ہی ہوتی رہی ملک کو پنپنے کا موقع ملا ہی نہیں۔ شائد یہ وجہ ہے کہ پاکستان میں کوئی طویل المدتی منصوبہ بنایا ہی نہیں جاسکا
اگر ایک گھر کے دو لوگ آپس میں لڑنے لگیں تو نقصان کس کا ہوگا ۔ یہ بات خان صاحب نے کبھی نہین سوچی۔ وزیر داخلہ کو انکی حکومت نے قید و بند کی صعوبتیں دی تھیں۔ آج اگر وہ پی ٹی آئی رہنماوں کو جیل میں ڈال رہے ہیں تو انکو جواز تو عمران خان نے ہی مہیا کیا ہے
عمران خان کو اب بھی حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہورہا ۔فوج کو گالی دینا ایک بات ہے اور چھاونی میں گھس کر کور کمانڈر ہاوس کو جلانا ایک دوسرا عمل۔ یہ ادارہ کی ساکھ کا مسئلہ ہے۔انکا خیال ہے کہ آج ایکشن نہیں لیا تو کل کو کوئی بھی اٹھ کھڑا ہوگا ۔ عمران خان کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر بیٹھے ہیں لیکن انکی باڈی لینگویج ابھی بھی جارحانہ ہے
اس میں شک نہیں کہ ان حالات میں جب سب چھوڑ کر جارہے ہوں ۔ درجنوں سنگین نوعیت کے کیسز ہوں اگر کوئی ڈٹا کھڑا رہے تو یا تو وہ احمق ہے یا انتہائی نڈر اور بے باک۔
آج عمران خان ایک بند گلی میں ہیں ۔ صاف لگتا ہے کہ انکی منزل اڈیالہ ہے ۔ ہوسکتا ہے انکی سابق اہلیہ جمائما خان بیچ بچاو کرادیں کہ وہ سٹی آف لندن کے ایک طاقتور خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ مانا جاتا ہے کہ سٹی آف لندن دنیا کی معیشیت کنٹرول کرتا ہے ۔ لیکن عمران خان نے حالات کو جس نہج پر پہنچا دیا ہے ۔ اب شائد جمائما بھی کوئی کردار نہ نبھا سکیں
اب خان صاحب پوری قوت سے بین الاقوامی برادری سے کسی معجزاتی مدد کے منتظر ہیں ۔ ملکی تاریخ کے ایک بہت ہی طاقتور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی آخری وقت تک اسی غلط فہمی میں رہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جن لوگوں سے ہم لوگ مدد لینے جاتے ہیں وہ دنیا کے مدت سے حاکم ہیں ۔ انکی بادشاہی کا راز ہی لوگوں کو آپس میں لڑا کر فائدے اٹھانا ہے ۔
جان ہے تو جہان ہے عمراں خان کو مان لینا چاہئے کہ وہ مس کیلکولیٹ کر کے یا اپنے نادان دوستوں یا مطلب پرست ساتھیوں کی وجہ سے ایک سنگین جرم کر بیٹھے ہیں ۔ اسکا واحد حل مدعیوں سے معافی ہے ۔ چند سال جلاوطنی یا قید کا حرجانہ بھی سستے میں چھوٹنا ہے۔لیکن معافی کے لئے انہیں اپنی باڈی لینگویج اور اپنی زبان بھی بدلنا ہوگی ۔ سوشل میڈیا پر اپنے ٹائیگرز کو بھی خاموش کرانا ہوگا۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے ۔ فیصلے میں اب شائد مہینوں نہیں دن ہی لگیں۔ ملک شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے ۔ اقوام متحدہ آئندہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں انتہائی غربت بلکہ قحط جیسی صورتحال کا خدشہ ظاہر کررہا ہے۔ اس ساری صورتحال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے ۔ لوگ عمران خان کو پوجتے ہیں ۔بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی ان پر جان چھڑکتے ہیں ۔ اگر تمام فریقین ملک کے وسیع تر مفاد میں مفاہمت کرلیں تو شائد عمران خان ملک کو بحرانی صورتحال سے نکا ل جائیں ۔ وہ اگر اپنی توجہ نوجوانوں کو ہنر سکھانے پر ہی مبذول کر لیں تو ہوسکتا ہے کہ ملک کے دن پھر جائیں ۔اگر کسی کا خیال ہے کہ عمران خان یا انکے حامیوں کو ڈرا دھمکا کر دبایا جاسکتا ہے تو یہ خام خیالی ہے ۔عمران خان کو جو بھی کہیں وہ ایک ملکی اثاثہ ہیں ۔ عمراں خان سے ہوسکتا ہے جانے انجانے میں بہت غلطیاں ہوئی ہوں لیکن اگر نواز شریف اور زرداری سے مفاہمت ہو سکتی ہے تو عمران خان سے کیوں نہیں
اب وقت آگیا ہے کہ ادارے بھی فیصلہ کرلیں ۔ یا تو سیاست سے دور ہوجائیں۔ لیکن اگر وہ سمجتے ہیں کہ ملک چلانا سیاستدانوں کا کام نہیں۔ اور جمہوریت نے ملک کو کچھ نہیں دیا تو جناب فوری مارشل لا لگا دیں ۔ تاریخ میں مارشل لا کے دوران غریب ہمیشہ سکھی ہی رہا ہےاور ملک نے ترقی ہی کی ہے۔ جبکہ جمہوریت کے چورن کا پھل ہمیشہ امرا نے ہی کھایا ہے