کیا جنرل پرویز مشرف غدار ہیں


President George W. Bush listens as President Pervez Musharraf, of the Islamic Republic of Pakistan, responds to a question Friday, Sept. 22, 2006, during a joint press availability at the White House. White House photo by Eric Draper
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر پرویز مشرف ، جمعہ 22 ستمبر 2006 کو وائٹ ہاؤس میں ایک مشترکہ پریس کے دوران ایک سوال کا جواب دے رہے ہیں۔فوٹو ایرک ڈریپر - وائٹ ہاؤس کی تصویر


سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف پاکستان کے ان چند سربراہان میں سے ہیں جو ساری زندگی تو میڈیا کی شہ سرخیوں
 میں رہے ہی رحلت کے بعد بھی سیاست کا محور ہیں



سابق صدر کو ایک ادنی امریکی افسر کے اشارے پر ملک کو دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں جھونکنے ۔ آئین شکنی ۔ لال مسجد میں معصوم طلبا کے قتل اور ججوں کی بر طرفی کا ذمہ دار ٹھراتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے 

ایک صحافی ہونے کے ناطے مجھے جنرل مشرف کے خلاف عائد کئے جانے والے سنگین الزامات کو ماننے میں تامل ہے۔ میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں جو دیکھا ہے اور ان مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر جو رائے قائم کی ہے ۔تمام سیاق و سباق کے ساتھ آپکے سامنے رکھ رہاہوں تاکہ وہ پہلو بھی اجاگر ہوجائیں جنہیں شائد ہم جذبات کی رو میں بہ کر مسلسل نظر انداز کئے جارہے ہیں





  جولائی9۔ 2007 ۔  لال مسجد۔ انٹرویو مولانا رشید غازی 

سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ فوج ہمارے خلاف کاروائی کرے ۔ ہم اسلامی نظام کے نفاذ کے اپنے مطالبے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ مولانا عبدالرشید غازی حتمی انداز میں کہ رہے تھے۔ ہم پوری طرح سے تیار ہیں مقابلے کے لئے، مولانا نے کہا اور ماحول کی تمام تر سنگینی کے باوجود میری ہنسی نکل گئی۔  پولیس۔ رینجرز ۔ فوج اور پھر فضائیہ۔آپ کے یہ نا ناتجربہ کار نوجوان ان زنگ آلود راکٹ لانچروں اور ان کھلونے نما بندوقوں سے ریاست کا مقابلہ کریں گے۔ حالات کی نزاکت سمجھیں  اور سرنڈر کردیں۔ میں نے مشورہ نماسوال اچھالا ۔اب ہنسنے کی باری مولانا کی تھی ۔

ہمیں بہت اوپر سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ لال مسجد طلبا کے خلاف کوئی اپریشن نہیں ہوگا ۔ میں تمیں بتا نہیں سکتا کہ کتنے بڑے بڑے لوگ ہمیں یہ روز آکر کہتے ہیں کہ بس اپ ڈٹے رہیں ۔ کوئی آپکا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔  آپ ہی ملک میں اسلامی نطام لے کے آئیں گے۔ مولانا جوش میں بولے چلے جارہے تھے اور میں راجن پور کے اس ایم ایس سی پاس کی سادگی پر حیران تھا۔ اگر بفرض محال ہمارے خلاف آپریشن شروع بھی کیا گیا تو لوگ پورے جی سکس سیکٹر کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے ۔ مولانا  قطعیت سے بولے

9 جولائی کی شام میں دفتر سے نکلا تو کسی کام سے تھا لیکن آبپارہ کے قریب سی ڈی اے فلیٹوں میں فوج کو منتقل ہوتا دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا اور میں فورا لال مسجد کے خطیب کا انٹرویو کرنے لال مسجد پہنچ گیا تھا ۔ مسجد اور اسکے گردونواح میں  مسلح افراد کا پہرہ تھا۔کافی تگ ودو کے بعد مولانا عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی مولانا عبدالرشید غازی صاحب مجھ سے ملنے پرراضی ہوگئے ، ایک رائفل بردار نوجوان مجھے مسجد کے عقب میں واقع رہائشی کوارٹروں کی جانب لے گیا جہاں مولانا ایک گلی میں ایک کرسی پر براجمان تھے۔ مسجد کے احاطے میں تاریکی چھائی تھی ۔ایک دو کے پاس راکٹ لانچر اور ہنڈ گرینیڈ بھی تھے۔ ان دنوں لال مسجد انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خوب ٹھنی تھی۔ لال مسجد والے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ پر تشدد ہوتا جارہا تھا۔ 

ملکی معیشت کے حوالے سے میری معلومات سطحی سی تھیں ۔ لیکن مولانا کے پاس میرے سادہ سوالوں کے جوابات بھی نہیں تھے۔ اچھا چلیں مان لیتے ہیں کہ آپ نے ملک میں اسلامی نفاذ نافذ بھی کردیا لیکن سود کا کیا کریں گے ریاست کا تو سارا کاروبار ہی سود پر ہے اور اسلامی نظام میں سود کی کوئی گنجائش نہیں آپ کے پاس کیا روڈ میپ ہے میں نے  اصرار کیا 

ہم کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیں گے۔ انہوں نے  دورخلا میں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ اور مجھے لگا مولانا کا تمام فہم اور انکی ساری بصیرت چند گز تک ہی محدود ہے۔ دفتر آیا انٹرویو فائیل کیا ۔  کاونٹ ڈاون ٹو لال مسجد بیگنز۔ اگلے دن کے اخبار کی شہ 

سرخی تھی ۔




لال مسجد ایک بین الاقوامی خبر

چند ہزار دینی طلبا کا اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ یوں تو کوئی بین الاقوامی خبر تو نہیں تھا لیکن امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور لال مسجد طلبا کے چینی افراد کے مبینہ اغوا کے تناظر مین اسے بین الاقوامی اہمیت حاصل ہو گئی

 یہی وجہ ہے کہ  غیرملکی صحافی بھی بڑی تعداد میں لال مسجد پہونچ گئے، چین شدید جز بز تھا  یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں تھی ۔ چند روز پہلے ہی چینی سفیر نے ایک بالمشافہ ملاقات میں اپنے جذبات اظہار کیا تھا۔یہ ایک اتفاقیہ ملاقات تھی وہ اپنے بچوں کے ہمراہ لوک ورثہ آئے ہوئے تھے اور میں کوریج کے لئے موجود تھا۔ موقع پاکر میں نے ان سے لال مسجد کے حوالے سے سوال پوچھا تو وہ پھٹ پڑے۔ چینی باشندوں  کے اغوا پر ہمیں شدید تحفظات ہیں وہ بولے ۔ چینی سفارت کار عام طور پر بیان بازی سے پرہیز کرتے ہیں۔میں سوچنے لگا کہ اگر چینی سفیر میڈیا پر یہ کہ رہے ہیں تو پس پردہ انکی حکومت پاکستانی سرکار پر کس حد تک دباو ڈال رہی ہوگی


لال مسجد آپریشن میں میڈیا کا کردار

کچھ لوگ بضد ہیں کہ لال مسجد ۔ پرویز مشرف کا ایک کوورٹ آپریشن تھا۔ جس کا مقصد امریکہ سے ڈالر اینٹھنا تھا ۔میں اس بارے میں تو نہیں جانتا لیکن وہ بتا سکتا ہوں جو میں نے دیکھا  

دس جولائی کی صبح تک ساری حکومتی مشینری حرکت میں آچکی تھی۔ صحافیوں کو لمحہ با لمحہ باخبر رکھنے کے لئے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نےلال مسجد کے قریب واقع ایک سرکاری کالج میں کیمپ قائم کردیا تھا۔ سول و فوجی افسران بھی کیمپ میں آنا شروع ہوگئے ۔لال مسجد کے اطراف دور دور تک یا تو صحافی تھے یا قانون نافذ کرنے اداروں کے اہلکار۔اسی اثنا میں ایک واقعہ ہوگیا ۔صحافیوں کا ایک گروپ میلوڈی کے قریب سڑک پر کھڑا تھا کہ کہیں سے ایک گولی آئی اور ایک صحافی کو  لگی جس سے وہ موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ بس پھر کیا تھا ۔ ہم صحافیوں نے ایک طوفان کھڑا کردیا

ہم خود کو کسی جنگی محاز پر محسوس کر نے لگے تھے جو کسی اعلی و ارفع مشن پر ہو۔ میرے جیسے اخبار کے صحافی تو تو چھوڑیں۔ ٹی وی کے کہنہ مشق صحافی بھی خوب برسنے لگےکہ ریاست چند شرپسند مولویوں یا جہادیوں کے آگے بے بس ہو گئی ہے ۔ چند لوگوں نے پوری ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یرغمال بنالیا ہے ۔ اور یہ ڈھول 24 گھنٹے پیٹا جارہا تھا۔ ہاہوکار تھی کہ آخر لال مسجد میں موجود دہشت گردوں کو قانون نافذ کرنے والے ادارے طاقت سے مغلوب کیوں نہیں کرتے اور ہم یہی بات ہر سرکاری افسر سے بھی پوچھ رہے تھے۔ ٹی وی کے جہاندیدہ صحافی نما اینکرز بھی جو آپریشن کے بعد طلبا پر فاسفورس بم چلائے جانے پر غمزدہ تھے  آپریشن سے پہلے کاروائی کا مطالبہ کرنے والوں میں سرفہرست تھے اسوقت شائد ہی کسی نے لال مسجد کو رسد کی فراہمی معطل کرنے کی بات کی ہو ۔  

لال مسجد کے قریب بنائے گئے سرکاری کیمپ میں دفتر خارجہ کی اسوقت کی ترجمان  تسنیم اسلم آئیں تو ان سے بھی یہی سوال کیا گیا۔ جب لال مسجد پر آپریشن کا مطالبہ بڑھا تو افسران اس کے حق میں نہیں تھے۔ پھر ہر جانب سے دباو بڑھتا گیا ۔ ایک جانب سیات دان تھے جو سیاست  چمکا رہےتھے اور دوسری جانب ٹی وی تھا جو انکے بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہا تھا 


جولائی 2007 میں عالمی ماحول 

مجھے نہیں پتہ کہ ملک کا صدر سربراہ ہونا کیسا ہوتا ہے ۔ فوج کا کمانڈر کیا سوچتا ہے اور اسکے سامنے  روزانہ  کی بنیاد پر کیا کیا آزمائشیں آتی ہیں ۔ملکی سالمیت کے فیصلے کیسے ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تو اسوقت پوری دنیا پر ایک سکتہ طاری ہوگیا تھا ۔ ایک بین الاقوامی ادارے کے لئے کوئٹہ اور پھر افغانستان سے رپورٹنگ کرتے میں نے دنیا کی غیر یقینی کا خود مشاہدہ کیا۔ ہر طرف ایک بے یقینی تھی ۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرنا ہے

شائد اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے دنیا کے طاقتور ممالک نے ایک بیانیہ ترتیب دیا اور باقی سب اس میں چاہتے یا نہ چاہتے استعمال ہوئے۔ کیا میڈیا کیا سیاستدان۔2007 میں بھی دنیا پر یہی بیانیہ غالب تھا۔جس میں ہر داڑھی والا دہشتگرد تھا۔ اور اسلامی نظام کا نام لینا دنیا کا سب سے بڑا جرم تھا




لال مسجد آپریشن پر میری رائے

اپریشن میں ریاست کے طلبا کے خلاف پوری طاقت استعمال کے  ثبوت ہیں جلی ہوئی لاشوں کی صورت میں ہیں ۔ لیکن طلبا کی کل کتنی تعداد تھی ۔ کیا جاں بحق ہونے والوں میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں ۔ یہ سوال آج بھی جواب طلب ہیں۔ یہ سوال آج بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ریاست نے کیسے مٹھی بھر مولویوں کو آبپارہ کے دل میں واقع اس مسجد میں اکٹھا ہونے دیا ۔ اسلحہ کہاں سے آیا۔ اور وہ کون لوگ تھے جو مولانا رشید اور مولانا عبدلعزیز کو  اسلامی نظام کے نفاذ پر اکسا رہے تھے۔

لال مسجد آپریشن کے بعد جاں بحق ہونے والے افراد کو امانتا ایچ گیارہ قبرستان میں دفنا دیا گیا تھا ۔تدفین سے پہلے لاشوں کو سبزی منڈی کے قریب واقع ایک کولڈ ہاوس میں رکھا گیا کئی روز بعد جب اسلام آباد انتظامیہ نے لاشوں کو لواحقین کے حوالے کرنا شروع کیا تو کئی دلخراش مناظر میں نے بھی دیکھے۔مگر اس سب کے باجود میری حقیر رائے میں لال مسجد آپریشن کی تمام ذمہ داری پرویز مشرف پر  عائد کرنا درست نہیں ۔ اسوقت امریکہ اور اتحادیوں کی زور و شور سے جاری دہشتگردی کے خلاف جنگ زوروں پر تھی ۔  کشیدگی کے  اس ماحول میں جب لال مسجد سے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا تو بین الاقوامی سطح پر مذمت ہوئی۔ میڈیا نے اسے روزی کا ایک زریعہ سمجھا تو سیاستدانوں نے دوکانداری کا موقع۔ پرویز مشرف کی کابینہ۔ خفیہ ادارے پولیس ۔ سیاستدان اور میڈیا ۔ سب نے لال مسجد ایشو کو ہوادی اور اپنی اپنی بساط کے مطابق ریاست کو طاقت کے استعمال کا مشورہ دیا 


آئین شکن مشرف

مشرف پر آئین توڑنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق صدر نے آئین توڑا ۔ لیکن سوال یہ ہے کیا یہ الزام عائد کرنے والے اپنی زندگیوں میں آئین کی پاسداری کرتے ہیں ۔ 500 روپے سے بھٹی لگانے کر پلک جھپتے امیر ترین بننے والے ہوں یا سینما کی ٹکٹ بیچتے یکدم دولت مند بن جانے والے ۔کرپشن سے دولت بنانا کیا آئین شکنی نہیں 

 ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے۔ رشوت لینے ۔ کم تولنے۔ جھوٹ بولنے۔جھوٹی خبریں پھیلانے اور کاروبار میں ہیرا پھیری بھی تو آئین شکنی کے ہی زمرے میں آتی ہیں۔بطور صحافی ذاتی طور پر میں نے نواز شریف اور شہباز شریف کو مشرف سے بڑا ڈکٹیٹر پایا ۔ عمران خان اور انکی جماعت کے لوگ تو  نواز شریف سے سو ہاتھ آگے ہیں ۔ ایک سخت سوال پر مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں سیاسی پارٹیوں کو مشرف پر آئین شکنی اور ڈکٹیر کے الزامات عائد کرنے سے پہلے اپنی جماعتوں کے اندر عام اور شفاف انتخابات کروانا ہوں گے

ہم سابق آمروں پر بھلے سے جتنی بھی تنقید کریں۔ اسکا ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ  ایک پیج والے آرمی چیف کو بھی کیوں کہنا پڑتا ہے کہ سیاسی دشمنیاں چھوڑیں اور معیشیت پر توجہ دیں۔   


ایک ادنی امریکی کے حکم پر ملک کو جنگ میں جھونک دینا 

2001 میں دنیا ایک کساد بازاری سے گزر رہی تھی ۔ ایسے میں جب تمام ملک پریشان تھے امریکہ کے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے اعلان سے ملکوں کو سانپ سونگھ گیا ۔ ہر طرف ایک بے یقینی اور  خوف کی فضا چھا گئی ۔ ایسے میں دنیا کے طاقتور ترین ملک کی مخالفت مول لینا ایک مشکل کام تھا۔ جبکہ ساتھ دینے میں فائدے ہی فائدے تھے۔ اسوقت کے فوجی سربراہ مشرف نے بھی آسان راستہ اختیار کیا ۔ تنقید کرنے والوں کو زمینی حقائق نہیں بھولنے چاہئیں ۔خود کو خودمختار کہنے والی ریاستیں اپنی ناکام معاشی پالیسیوں کے باعث آج بھی مغرب کی غلام ہیں 

  شہریوں کو امریکی حکام کے حوالے کرنا یا انہیں لاپتہ کردینا یقینا ایک ناقابل تلافی جرم تھا ۔ مگر اس جرم کے ذمہ دار فقط مشرف تو نہ تھے ۔آج ہم جمہوریت پسند شیخ رشید اور ان جیسے دوسرے سیاستدانوں سے کیوں نہیں پوچھتے کہ  گمشدہ افراد کہاں ہیں۔ 


عدلیہ کو معزول کرنا

پرویز مشرف پر تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے عدلیہ کو گھر بھیج کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہونچایا ۔ سالوں وکیلوں کے ہمراہ پولیس کی مار کھا کر آج میں یہ سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کی برخاستگی جنرل مشرف کا ایک انتظامی فیصلہ تھا ۔ نظام عدل ویسا ہی رہا جیسے کہ روز اول سے تھا ۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے برخاستگی اور پھر بحالی کے بعد بھی ججوں کی بھرتی سے لیکر انصاف کی فراہمی تک کے پورے نظام میں کہیں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی 

حرف اخر

بحیثیت انسان جنرل پرویز مشرف سے بے شمار غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن آمر  بھی کوئی فیصلہ اکیلے نہیں کرسکتا ۔ اسکی کابیینہ اور ادارہ بھی تمام فیصلوں میں برابر کا شریک ہوتا ہے ۔ پرویز مشرف اب اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ۔ان پر تنقید بلاجواز  ہے ۔ اس ساری بات کا دینی پہلو یہ ہے کہ اسلام فوت ہونے والے اشخاص کو برا بھلا کہنے سے منع کرتا ہے ۔ صحیح بخاری کی کتاب 81 کی 105 حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردوں کو برا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جیسا عمل کیا اسکا بدلہ پالیا

واللہ و اعلم بالصواب


 

Previous Post Next Post