اسلام آباد: (یکم نومبر، 2022) اکتوبر کا ماہ پاکستان کے لاکھوں خاندانوں نے انتہائی مہنگائی میں کسی طور زندہ رہنے کے لئے شدید جدوجہد کرتے ہوئے گزارا۔ ملک کی منڈیوں میں تاہم معمولی بہترے دیکھنے میں آئی
اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ کا منصب سنبھالے ایک ماہ ہو گیا ہے ۔ ایک اقتصادی جادوگر کے طور پر پیش کئے جانے والے ڈار تاحال کوئی معرکہ سرانجام نہیں دے پائے ہیں۔ اپنی پانچ سالہ خودساختہ جلاوطنی کے بعد جب انہون نے گزشتہ ماہ پاکستان آنے کا اعلان کیا تو دعوی کیا تھا کہ ڈالر کا اصل ریٹ ایک سو پچاسی کے قریب ہے اور وہ ایک ماہ کے اندر ڈالر کا نرخ دو سو روپے سے نیچے لے آئیں گے۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے اکتوبر کے پہلے ہفتے کے دوران پاکستانی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں کوئی 14 روپے بہتر ہوئی۔ ستمبر کے آخری دنوں میں پاکستانی کرنسی کا ریٹ 237 روپے تھا ۔ آج اسکا نرخ انٹر بینک میں 221 روپے کے قریب ہے۔ اوپن مارکیٹ کی قیمت کہیں زیادہ ہے۔ حالیہ بہتری بھی وزیر خزانہ کی ہفتے کے روز کمرشل بینکوں کے سربراہان اور ایکسچینج کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد آئی ہے جس میں انکو خبردار کیا گیا تھا
کہ حکومت ذخیرہ اندوزوں اور کرنسی اسمگلروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے والی ہے جو پاکستانی کرنسی کی قدر جان بوجھ کر گرا رہے ہیں۔ اکتوبر کے دوران اسٹاک ایکسچینج مجموعی طور پر مندے کا شکار رہی ۔ نومبر کے پہلے روز معمولی بہتری آئی جس کی وجہ وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ چین قرار دیا جارہاہے وزیر اعظم چین کے دوروزہ سراکری دورے پر ہیں جہاں وہ چین پاکستان راہداری کے منصوبوں کے احیا کے حولاے سے بات چیت کریں گے اور ساتھ ہی چین سے قرضوں کی اقساط کی ادائیگی میں نرمی کی بھی استدعا کی جائے گی
مارکیٹ میں موجودی مثبت لہر کی وجہ حکومت کا اگلے دو ہفتے کے لئے تیل کی قیمتیں موجودی نرخوں پر برقرار رکھنے کا اعلان بھی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مارکیٹ کا یہ مثبت رجحان زیادہ دیر قائم رہ پائے گا۔ ملک کی سیاسی فضا روز بروز مزید غیر یقینی کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ مہنگائی کا جن مخلوط حکومت کے قابو سے باہر ہے۔ لاکھوں پاکستانی خاندان اپنے بچوں کے لیے کھانا حاصل کرنے اور اپنے بلوں کی ادائیگی کے لیے سخت پریشان ہیں ۔ سیلاب متاثرین اپنی جگہ پر ۔ شہروں دیہاتوں والے بھی کام نہ ہونے کی وجہ سے بیروزگار ہیں ۔ جو کما رہے ہیں انکا مہنگائی میں گزارہ نہیں ہو رہا
پاکستان محکمہ شماریات کے مطابق اکتوبر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں گزشتہ سال کی نسبت 26.6 فیصد اضافہ ہوا، دیہی علاقوں میں کھانے پینے کی اشیا 29 فیصد مہنگی ہوئیں۔ ملک میں گندم سمیت کئی اجناس کا بحران ہے ۔جانور سیلاب میں بہ جانے کی وجہ سے دودھ کی قلت ہے ۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر، جو 50 سے زائد متعلقہ چھوٹی صنعتوں کو چلاتا ہے، تعمیراتی سامان کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مجموعی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے شدید مندے کی سی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں، مہنگائی اور سیاسی بے یقینی کی وجہ سے زیر تعمیر یونٹس کو فروخت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں خدشہ ہے کہ ایک نیا بحران نہ سر اٹھا لے
مہنگائی کی وجہ سے ہزاروں افراد جنہوں نے بینکوں سے قرض لے کے مکان بک کروائے تھے یا زیر تعمیر اپرٹمنٹس خریدے تھے اب انکے لئے مہنگائی کی وجہ سے قسطیں ادا کرنا مشکل ہورہا ہے۔ تعمیراتی سامان میں ہوش ربا اضافے کے باعث خدشہ ہے کہ کئی بلڈر اپنے وعدوں کے مطابق اپنے پلازے وعدہ کی گئی قیمت اور وقت میں مکمل نہیں کرپائیں گے ۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق بینکوں نے گزشتہ سال کے دوران 180 ارب روپے کی درخواستیں منظور کیں اور 66 ارب روپے کے ہاؤسنگ لون فراہم کیے۔ آنے والے دنوں میں معاشی بحران مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے ہزاروں سیاسی حمائتیوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں
مزید پڑھیں: بینکوں نے گھروں کی تعمیر کے لئے کتنے روپے کے قرضے دئے
تاہم وزارت خزانہ نے اپنے اکتوبر کے آؤٹ لک میں معاشی کارکردگی کی بہتر ہونے کی نوید سنارہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "سی پی آئی افراط زر میں کمی آ رہی ہے، روپے نے استحکام حاصل کیا ہے، اور کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس بہتر ہو رہا ہے۔ یہ پیش رفت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آنے والے مہینوں میں معاشی سرگرمیاں مثبت اور مستقل رہیں گی"۔سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے