ملک میں سیاسی پارہ انتہا کو پہنچنا شروع ہوگیا ہے۔ عمران خان کے فوج اور حکومت مخالف بیانیے میں
شدت آتی جارہی ہے تو دوسری جانب فوج اور حکومت کا لہجہ بھی درشت ہوتا محسوس ہوتا ہے
عمران خان اپریل سے ہی اپنی حکومت جانے کا الزام فوج پر عائد کر تے ہوئے ایک فیصلہ کن لانگ مارچ کا عندیہ دے رہے تاہم، کینیا میں صحافی ارشد شریف کے قتل سے عمران خان کو جواز مل گیا ۔ خان اور ان کی جماعت نے سوشل میڈیا پر پورے ملک کی ہمدردیاں سمیٹ لیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے پاس ملک کی سب سے مضبوط سوشل میڈیا ٹیم ہے، جو گزشتہ کئی سالوں سے بڑی کامیابی سے عمران خان کے برانڈ اور پارٹی بیانیے کو عوام میں مقبول بنا رہی ہے ۔ یہ ٹیم اتنی منظم اور ایسے متنوع جغرافیائی مقامات پر پھیلی ہوئی ہے کہ 5 جی کا بیانیہ ترتیب دینے والے ملک کے طاقتور محکموں کے جنگجو بھی اسکے آگے بے بس نظر آتے ہیں یہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کا کامیاب بیانیہ ہی تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار پاک فوج کے چیف جاسوس کو پریس کانفرنس کرکے اپنی اور اپنے محکمے کی صفائی دینا پڑی ۔ لیکن، خان اور ان کی پارٹی نے اس اہم ترین پریس کانفرنس کو پیغام سمجھے بغیر اسے اپنے بیانئے کی جیت سمجھا اور تابڑ توڑ حملے جاری رکھے ۔ یہاں تک کہ جمعرات کو، جب وزیر آباد میں پی ٹی آئی کے جلسے پر حملہ ہوا، عمران خان نے بلا توقف سارا الزم ایک حاضر سروس جنرل، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ پر ڈال دیا۔ خان صاحب کو پولیس اور دوسری جانب سے باور کرایا گیا کہ ملکی تاریخ میں حاضر سروس اعلی فوجی افسر کے خلاف پولیس کیس اور وہ بھی اقدام قتل کا بن ہی نہیں سکتا لیکن خان صاحب ڈٹے رہے۔ خود پر ہوئے قاتلانہ حملے کے دو دن بعد، خان نے ہفتے کے روز ایک بار پھر فوج پر شدید تنقید کرتے ہوئے جنرل فیصل کا نام ایف آئی آر میں ڈالنے پر اصرار کیا
ان کی پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں نے بھی اپنے احتجاجوں میں بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا۔ اس پر فوج کا شدید ردعمل آیا ۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران کے فوج اور اسکے ایک اعلی افسر پر بنا کسی ثبوت کے سنگین الزامات کو ناقابل قبول اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے فوج نے قانونی کارروائی کی سفارش کی
عمران خان نے اس تنبیہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ۔ فوج اور موجودہ حکومت کے خلاف ایک حتمی جنگ کی کال دیتے ہوئے عمران خان نے منگل سے لانگ مارش دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ جس وقت عمران خان شوکت خانم میموریل ہسپتال لاہور میں بیٹھے عوام کو ڈٹ جانے کا کہ رہے تھے اسی وقت صرف چند کلومیٹر دور وزیراعظم شہباز شریف اپنے دفتر میں سابق وزیراعظم کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کے پروانے پر دستخط کر رہے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کو بغیر کسی ثبوت کے معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے اور فوج اور اس کے اہلکاروں کو بدنام کرنے پر گرفتار کر سکتے ہیں۔ یوں تو عمران خان کو ریاست کئی قوانین کے تحت گرفتار کرسکتی ہے لیکن فوجداری قانون ترمیمی بل 2020 کے سیکشن 500 کے تحت گرفتاری کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس قانون کے تحت پاکستانی مسلح افواج کی تضحیک، بے عزتی یا بدنامی قابل سزا جرم ہے جس میں دو سال قید یا 500,000 روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ خان صاحب اس وقت ایک بند گلی میں پہنچ گئے ہیں ۔ گزشتہ چند روز میں خان صاحب نے ملک میں ایک اتنا مضبوط بیانیہ تیار کرلیا ہے کہ اب اگر وہ اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹتے ہیں تو عوامی مقبولیت کھو دیں گے ۔ لیکن اگر وہ کسی حاضر سروس اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر اصرار کرتے ہیں تو یہ سیاسی خودکشی ہو گی۔ ملک کی تاریخ بتاتی ہے کہ ریاست سے ٹکراو کی کوئی بھی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوئی ۔ اور شائد آئندہ بھی نہ ہو ۔عمران خان اپنی جان کو لاحق خطرات کا ذکر پہلے ہی کئی بار کر چکے ہیں ۔ تو کیا عمران خان 20 سال کی جدوجہد اس نازک مقام پرجذبات میں جھونک دیں گے یا دانش مندی سے کام لیتے ہوئے نومبر کا مہینہ گزاریں گے ۔ دسمبر میں نئے آرمی چیف کی کمان
سنبھالنے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی عمران خان کے دم سے ہی قائم ہے